فرقہ واریت کا خاتمہ-امت مسلہ کی نجات کا راستہ

 


تعارف

فرقہ واریت آج کے دور کا ایک ایسا زہر بن چکی ہے جو امتِ مسلمہ کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ اسلام نے انسانیت، بھائی چارے، اور اتحاد کا درس دیا ہے، لیکن ہم نے مذہب کے نام پر نفرت، تقسیم اور انتشار کو جنم دیا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
“اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو” (آل عمران: 103)۔
یہ آیت امت کے اتحاد کی بنیاد ہے۔ مگر افسوس کہ ہم نے اس حکم کو بھلا کر خود اپنے دشمن بن بیٹھے ہیں۔
فرقہ واریت نے نہ صرف مسلمانوں کی روحانی طاقت کو کمزور کیا بلکہ ہماری معاشرتی، سیاسی، اور تعلیمی ترقی کو بھی روک دیا۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم سوچیں — آخر ہم کب تک آپس کی نفرتوں میں الجھے رہیں گے؟


فرقہ واریت کے خاتمے کے سات اہم نکات

1. تعلیم و شعور کی بیداری

فرقہ واریت کے خاتمے کی پہلی شرط علم و شعور ہے۔ جب انسان تعلیم یافتہ ہوتا ہے تو وہ تعصب اور جہالت کے دائرے سے نکل کر وسیع سوچ اختیار کرتا ہے۔ ہمارے مدارس اور اسکولوں میں ایسی تعلیم ضروری ہے جو صرف مسلکی نہیں بلکہ اسلامی اور انسانی اقدار پر مبنی ہو۔
علم انسان کو سوچنے، سمجھنے اور برداشت کرنے کا ہنر دیتا ہے — اور یہی فرقہ واریت کے زہر کا سب سے مؤثر تریاق ہے۔


2. مذہبی رواداری اور احترامِ انسانیت

اسلام نے ہمیشہ رواداری کا درس دیا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
"تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔"
یہ حدیث ہمیں سکھاتی ہے کہ دوسروں کے نظریات کا احترام کریں۔ اختلافِ رائے فطری بات ہے، لیکن اسے نفرت یا دشمنی میں بدل دینا ظلم ہے۔ اگر ہم دوسروں کے مسالک کو برداشت کرنا سیکھ لیں تو فرقہ واریت خود بخود ختم ہو جائے گی۔


3. میڈیا اور منبر کا مثبت کردار

آج کے دور میں میڈیا، مساجد، اور منبر کی طاقت بے پناہ ہے۔ اگر یہ پلیٹ فارم نفرت کے بجائے اتحاد، برداشت اور اخلاق کے پیغام دیں، تو معاشرہ بدل سکتا ہے۔
علماء کرام، خطباء اور میڈیا کے نمائندوں کو چاہیے کہ وہ لوگوں کو جوڑنے والے بنیں، توڑنے والے نہیں۔
اسلام کی اصل روح محبت ہے — اور یہی پیغام منبر سے بلند ہونا چاہیے۔


4. سیاسی استحکام اور انصاف

بہت سے ممالک میں فرقہ واریت کو سیاسی مفادات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ کچھ قوتیں اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لیے عوام کو فرقوں میں بانٹ دیتی ہیں۔
فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت انصاف، مساوات، اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنائے۔
جہاں انصاف نہیں ہوگا، وہاں انتشار جنم لے گا۔
ایک منصف معاشرہ ہی فرقہ واریت سے نجات پا سکتا ہے۔


5. معاشرتی ہم آہنگی اور بھائی چارہ

ہمیں اپنی روزمرہ زندگی میں ایک دوسرے کے ساتھ حسنِ سلوک کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
چاہے وہ شادی بیاہ کے مواقع ہوں یا کاروبار، ہمیں مسلک یا فرقے کی بنیاد پر امتیاز نہیں برتنا چاہیے۔
اگر ہم اجتماعی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ جڑنے لگیں تو نفرت کی دیواریں خود بخود گر جائیں گی۔
اسلامی معاشرہ تب ہی مثالی بنے گا جب اس میں محبت، اخوت اور مساوات ہوگی۔


6. نوجوان نسل کی تربیت

نوجوان قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔ اگر انہیں فرقہ واریت سے پاک سوچ دی جائے تو آنے والی نسلیں اس عفریت سے محفوظ رہ سکتی ہیں۔
گھروں، اسکولوں اور دینی اداروں میں ایسی تربیت دی جائے کہ نوجوان سوشل میڈیا یا اشتعال انگیز باتوں سے متاثر نہ ہوں۔
انہیں سکھایا جائے کہ اسلام کی اصل پہچان اتحاد اور خدمتِ خلق ہے۔


7. قرآن و سنت کی طرف رجوع

فرقہ واریت کے خاتمے کا سب سے مؤثر حل قرآن و سنت کی تعلیمات پر عمل ہے۔
اگر ہم ذاتی مفادات اور مسلکی تعصبات چھوڑ کر صرف قرآن و سنت کی روشنی میں زندگی گزاریں تو ہر اختلاف ختم ہو جائے گا۔
اسلام نے ہمیں ایک امت بنایا ہے، مسلک نہیں۔
قرآن میں بار بار اتحاد، صبر، اور عدل کی تاکید کی گئی ہے — ہمیں انہی اصولوں کو زندگی کا حصہ بنانا ہوگا۔


اختتامیہ

فرقہ واریت کا خاتمہ صرف ایک نعرہ نہیں بلکہ وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے اب بھی آنکھیں نہ کھولیں تو ہماری کمزوریوں سے دشمن فائدہ اٹھاتا رہے گا۔
اسلام امن، محبت، اور اخوت کا مذہب ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم دوسروں کے نظریات کا احترام کریں، نفرت کے بجائے محبت کو فروغ دیں، اور قرآن و سنت کو اپنی زندگی کا محور بنائیں۔
جب ہم اپنے دلوں سے تعصب کا اندھیرا نکال دیں گے، تب ہی امتِ مسلمہ دوبارہ اپنی کھوئی ہوئی عظمت حاصل کر سکے گی۔

“اتحاد میں برکت ہے، تفرقے میں زوال”
اللہ ہمیں ایک ہونے کی توفیق دے۔ آمین۔

Post a Comment

Previous Post Next Post
WhatsApp
WhatsApp Support

اسلام علیکم

راہنمائے جوانان پاکستان

ہم آپ کی کیا مدد کر سکتے ہیں ؟۔ اپنا پیغام لکھیں۔