تمہید
دورِ حاضر میں الحاد (Atheism) تیزی سے پھیل رہا ہے۔ سائنس، فلسفہ اور مادّی فکر کے نام پر بعض لوگ خدا کے وجود کا انکار کرتے ہیں اور وحی، نبوت و آخرت کو خیالی تصورات قرار دیتے ہیں۔ مگر اسلام نے ہمیشہ عقل و نقل دونوں بنیادوں پر ان گمراہ نظریات کا ردّ کیا ہے۔ ذیل میں سات بنیادی نکات کے ذریعے ملحدین کے نظریات کا عقلی و نقلی ردّ پیش کیا جاتا ہے۔
1. کائنات کا وجود خالق کے بغیر ممکن نہیں (عقلی دلیل)
کائنات ایک منظم نظام کے تحت چل رہی ہے۔ سورج، چاند، ستارے، زمین اور فطرت کے تمام اصول کسی خاص ترتیب سے کام کرتے ہیں۔ عقل سلیم یہ تسلیم کرتی ہے کہ منظم نظام ہمیشہ کسی منظم کرنے والے کے بغیر نہیں ہوتا۔
قرآن میں فرمایا گیا:
"اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ اَمْ هُمُ الْخَالِقُوْنَ"
(سورۃ الطور: 35)
کیا یہ بغیر کسی چیز کے پیدا ہوگئے ہیں یا یہ خود اپنے خالق ہیں؟
یہ آیت ایک مکمل عقلی حجت ہے کہ وجودِ کائنات کا کوئی نہ کوئی خالق ضرور ہے۔
2. انسانی فطرت خالق کی تلاش کرتی ہے (فطری دلیل)
انسان فطرتاً کسی اعلیٰ طاقت کے وجود کو محسوس کرتا ہے۔ حتیٰ کہ وہ لوگ جو ظاہری طور پر خدا کے منکر ہیں، مشکلات میں کسی نہ کسی مافوق الفطرت طاقت کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا"
(سورۃ الروم: 30)
یعنی دینِ فطرت پر قائم رہ، یہی وہ فطرت ہے جس پر اللہ نے انسانوں کو پیدا کیا۔
لہٰذا فطرت خود گواہی دیتی ہے کہ کوئی خالق و ربّ موجود ہے۔
3. وحی اور عقل میں تضاد نہیں، تکمیل ہے (عقلی و نقلی توازن)
ملحدین یہ اعتراض کرتے ہیں کہ مذہب عقل کے خلاف ہے، حالانکہ اسلام نے عقل کو رد نہیں کیا بلکہ وحی کے ساتھ اس کا توازن قائم کیا۔
قرآن عقل کو استعمال کرنے کا بار بار حکم دیتا ہے:
"اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ", "اَفَلَا تَتَفَكَّرُوْنَ"
اسلامی عقیدہ عقل کی رہنمائی سے وحی کی صداقت تک پہنچاتا ہے، نہ کہ اس کے خلاف جاتا ہے۔
4. اخلاقیات کی بنیاد خدا کے بغیر قائم نہیں ہو سکتی (اخلاقی دلیل)
اگر خدا کا وجود نہ مانا جائے تو نیکی اور بدی کا کوئی مطلق معیار باقی نہیں رہتا۔ پھر ظلم، انصاف، وفا، اور دیانت سب صرف ذاتی پسند ناپسند بن جاتے ہیں۔
اسلام اخلاق کی بنیاد اللہ کی مرضی پر رکھتا ہے۔
"اِنَّ اللّٰهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ"
(سورۃ النحل: 90)
خدا کے بغیر اخلاقی نظام بے بنیاد ہو جاتا ہے، جو خود الحاد کی فکری کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔
5. نبوت و وحی کی ضرورت (عقلی و نقلی دلیل)
اگر صرف عقل کافی ہوتی تو انسان کبھی گمراہ نہ ہوتا، مگر تاریخ گواہ ہے کہ عقل اکیلی راستہ نہیں دکھا سکتی۔ اسی لیے اللہ نے انبیاء بھیجے تاکہ عقل و وحی کا امتزاج انسان کو راہِ ہدایت پر قائم رکھے۔
"رُسُلًا مُّبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لِئَلَّا يَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَى اللّٰهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ"
(سورۃ النساء: 165)
6. الحاد کا منطقی انجام بےمعنویت ہے (فلسفی دلیل)
اگر کوئی خدا نہیں تو زندگی کا کوئی مقصد بھی نہیں۔ انسان صرف حادثاتی وجود بن جاتا ہے، اور موت سب کچھ ختم کر دیتی ہے۔
یہ نظریہ خود انسان کے اندر پیدا ہونے والے "معنی" کی فطری طلب کو ردّ کرتا ہے۔ اسلام زندگی کو مقصد دیتا ہے:
"وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ"
(سورۃ الذاریات: 56)
7. قرآن کا اعجاز، الحاد پر حتمی دلیل (نقلی و سائنسی دلیل)
قرآن مجید کا اسلوب، اس کی پیش گوئیاں، اور اس کے سائنسی اشارات آج بھی ناقابلِ تردید ہیں۔ کوئی انسان چودہ صدیوں پہلے ایسی کتاب نہیں لکھ سکتا تھا جس کے ایک ایک لفظ میں حقائق چھپے ہوں۔
"وَاِنْ كُنْتُمْ فِيْ رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا فَأْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهِ"
(سورۃ البقرۃ: 23)
یہ چیلنج آج بھی باقی ہے اور کوئی اس کا جواب نہیں دے سکا۔
نتیجہ
الحاد دراصل علم یا عقل کی کمی نہیں بلکہ انسان کی فطری سرکشی کا نتیجہ ہے۔ جو انسان خالقِ حقیقی کو مان لیتا ہے، وہ کائنات، عقل، اخلاق، اور زندگی کے معنی سب کو ایک لڑی میں پرو لیتا ہے۔
اسلام عقل کو محدود نہیں کرتا بلکہ اسے وحی کے نور سے کامل بناتا ہے۔ یہی انسان کے وجود کا توازن اور حقیقت ہے۔
